نوجوان قوم کے معمار ہیں
… محمد شاہنواز ندوی "
قوم وملت میں نوجوانوں کی حیثیت جسم
میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے بغیر اس کے جسم میں سکت نہیں کہ سیدھا کھڑا
ہوسکے، ٹھیک اسی طرح سماج ومعاشرہ میں اقوام وملل میں نواجون افراد کے
سیدھے راستہ پر چلنے ہی۔ سے ترقی کی مثالیں قائم ہوسکتی ہیں ، ملت کے
نوجوانایسی فولادی صلاحیت کے مالک ہیں جن کے ذریعہ سخت سے سخت آہنی دلوں کو پگھلا
سکتے ہیں،اگر یہ اپنی قوت وصلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے ستاروں میں کمند
ڈالنا چاہیں تو کوئی مشکل نہیں، اگر یہ مرد آہن حضرات فکری وآگہی
سے عاری لوگوں کو صحیح سمت دینے کے خواہواں تو انہیں فکر سلیم کے مالک
بنا سکتے ہیں، بگڑے ہوئے سماج کی اصلاح کی فکر کریں تویکا یک اصلاح ودرستگی کا
ماحول قائم ہوسکتا ہے، اگر معاشرہ میں لا ابالی پن کے شکارحضرات کو دوقعمل
وشوق شہادت کا خوگر بنانا چاہیں تو بناسکتے ہیں ، اگر انسانی قالب میں حرکت کرنے
والے ، جذبہ ووجدان سے محروم لوگوں کے دلورں میں شجاعت کی روح
پھونکنا چاہیں تو پھونک سکتے ہیں، اگر خس وخاشاک کے
پیچھے بھاگنے والوں کو ہماکے شکاری کرنے کا گڑ سکھا نے کی ٹھان
لیں تو سکھا سکتے ہیں، غرض وہ تمام صلاحیت ولیاقت جو مسلم قوم کے
آباء واجداد میں موجود تھیں انہیں دو بارہ حاصل کی جاسکتی ہیں، لیکن ان
کی حصولیابی کی اولین شرط یہ ہےکہ ان کے نقش قدم پر چلاجائے ، تب
کہیں جاکر ممکن ہوسکتا ہے کہ وہی کارہائے نمایاں انجام دئے جائيں جو کہ
دور ماضی کے اسلامی جاں بازوں نے انجام دیا تھا ۔
آج خالد بن ولید کی ثبات قدمی ، عمر
فاروق کی جلالت، صلاح الدین ایوبی کی پختگی وصلابت اور طارق بن
زیاد کی ہمت اور ابن تیمیہ کی مروت کی ضرورت ہے، جس دن مسلم نوجوان ان
صفات سے متصف ہوجائیں گے سمجھ لیجئےاسی دن سے عالم اسلام کا
کایا پلٹ ہوجائیگا ، اور اقوام وملل کی تقدیریں آن کی آن میں
بدل جائیں گی ، ذلت پستی خاک میں لوٹتے ہوئے لوگوں کی معراج
ہوگی،اور ذہنی انحطاط وتنزل کی کھائیوں سے نکل کر عوج ثریا میں
آشیانے بنائے جائیں گے ، دو بارہ اسلامی تہذیب وثقافت کی بھر
پور پذیرائی ہوگی، پورے عالم اسلام کا سکہ رائج ہوگا، بچہ پیر وجوانوں
میں بہادری ودلیری کی لہر دوڑے گی، اور غیرت وحمیت کے دریا
میں جوش وطغیانی ہوگی، فکر باطل کی پسپائی ہوگی، قلب ونظر میں
گہرائی وگیرائی پیدا ہوگی ، رذالت، ذلالت اور خباثت کی سرکوبی ہوگی،
عزت وشرافت کی سربلندی ہوگی،گویا کہ کھوئی ہوئی ایمانی فراست دو
بارہ ہاتھ لگے گی ، اور جسے حاصل کرنا مرد مومن کی ذمہ داری ہے اس لئے
کہ ان کی اپنی جائیداد دومیراث ہے۔
سوال یہ ہےکہ عصر حاضر میں نوجوانوں
کی اکثریت جس طرح زندگی پر چل رہی ہے کیا سے انقلاب وآزادی کا حصول
ممکن ہے، جن کے نزدیک ایمان اور تقاضۂایمان کی قدر وقیمت نہیں، خودی اور
اسرار خودی کی اہمیت نہیں، جو صاحب دل فطرت شناش نہیں، جو سکوت لالہ گل سے
کلام پیدا کرنے پر قادر نہیں ، جو ہر روز نئی صبح وشام پیدا کرنے پر راضی
نہیں، جن کے دل ہوس کے کمین گاہ ہوں، جن کے پاس براہیمی نظر نہیں، جن
کے قلب میں سوز اور روح میں احساس نہیں، جنہیں تڑپنے کا شوق اور
پھڑ کنے کی امید نہیں ، نہ انہیں دل مرتضی حاصل ہے اور نہ ہی سوز صدیق ملا
ہے، جن کے پاس تن کی دولت تو ہے لیکن من کی دولت نہیں، جن کے شب وروز رقص
سرور، مجرے ومحفل میں کٹتے ہوں، لیکن آہ سحر گاہی سے کوئی واستہ
نہیں، وج عشق مجازی کے رسیاہوں ، عریا جسم اور عریانیت کے خوگرہوں، ترن
پروروی اور عیش کوشی میں بے نظیر ہوں، متاع غرور کے سودا گرہوں، بادہ
وجام کے دلدادہ ہوں کیاایسوں سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کی
نیابت کریں گے، طارق بن زیادہ کی تاریخ دہرائیں گے، حسن البنا کی مثال
قائم کریں گے، اورعلماء اہل دل باصفا کی طرح اسلامی اقدار کی حفاظت کریں گے۔
ایسا نہیں ہےکہ اللہ تعالی نے اسلام کےان
جانباز سپاہوں کو دو ہاتھ کے بجائے کئی ہاتھ دئے ہوں، یادو آنکھ کے
بجائےکئی آنکھیں دی ہوں، جن سے چاروں طرف ان کی نگاہ رہتی ہوں اور
وہ پوری طرح ہوشیار وچوکنا رہتے ہوں، یا پھر کوئی ایسی خفیہ طاقت
عطا کی ہو جس سےعصر حاضر کے نوجوان محروم کئے گئے ہوں، ہرگز نہیں
، بلکہ خلقت کے اعتبار سے ہر کوئی ایک ہے،اگر فرق ہے تو عقیدے کی پختگی میں
،کمی ہے تو ایمان کے کامل ہونے میں ، عاجزی ہے تو صرف حق گوئیاور
بے باکی میں، مفلسی ہے تو صرف قرآنی دولت میں، یہی وجہ ہےکہ یہ قوم نہ تو
اسرار شہنشاہی سے واقف نہ ہی آداب خدا گاہی کے روشناس ہیں۔
بلکہ اخلاقی تنزلی کے شکار اور فکری بے
راہ روی کے علمبردار ہیں۔
((المؤمن القوي
خيرٌ وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف،)
ترجمہ:اللہ تعالی کو تندرست و توانا مومن
لاغر و کمزور مومن کے مقابلہ میں بہت زیادہ پسند ہے
اس
حدیث میں قوت سے مراد ایمانی ،بدنی اور
عملی قوت مراد لی گئی ہے ،اور ان صفات سے متصف شخص حد درجہ جہتر ہے اس شخص سے جو
کمزور ہے اپنےایمانی ،بدنی ،اور عملی طاقت و قوت میں،کیونکہ طاقتور مومن جس قدر
مسلمانوں کو نفع پہونچاتا ہے اتنا کمزور و ناتواں مومن نفع نہیں پہونچا سکتا ،خواہ
اسلام اور مسلمانوں کی دفاع میں ہو یا مسلمانوں کے ملی دینی و سماجی مسائل کا حل
نکانے میں ،اسی طرح مسلمانوں کے سماج
کوجملہ اقسام کی برائیوں اور دیگر مذاہب کے طور طریقوں سے
بچانے میں مسلم قوم کے نوجوان ہی کارہاے نمایاں انجام دے سکتے ہیں۔
اس وقت سب سےاہم ضرورت یہ ہےکہ مسلم
نوجوان بیدارمغزی کا ثبوت دیں،دیدۂ بینا اورگوش سنوا سے کام
لیں ہوش کے ناخن لیں، اپنے خوابیدہ دل کو بیدارکریں، مرد مومن اور
مرد آہن کی صفات پیدا کریں، اس لئے کہ نوجوان ہی کاروان رشد
وہدایت کے سرخیل ہمیشہ سے رہیں ہیں، فلاح وبہبودی کے علمبردار ہیں، آج
ملت اسلامیہنوجوانوں کی راہ تک رہی ہیں، فرعونی چنگل میں گرفتار
وحدانیت کی روح ان سے شکوہ سنجی کررہی ہیں، اورزور زور سےچیخ رہی ہیں ،
کہ ائے ملت کے نوجوانوں ،اسے ملت ابراہیمی کے مشن سنبھالنے والو
ہمیں نمردو کے خونی پنجہ سےرہا کر،ائے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے
نسبتیں جوڑنے والو ہماری مدد کو آؤ، ایک وقت تھا کہ تم نیزے کے بو چھاروں میں
بھی دعوت توحیددی تھیں، تلوارکےجھنکاروں میں بھی کلمۃ اللہ کی صدادی
تھیں، تو پھر آج یہ کوتاہی کیوں،اٹھو!میدان عمل میں آؤ! اور پوری دنیا
میں اسلام کا پرچم لہرا کر اپنی جوانی اور زندہ دلی کا ثبوت دو!یہی ہماری
آپ سے فریاد ہے،اور یہی مظلوم ومعصوم جیلوں میں بند روحوں کی
پکار ہے ،کاش کہ آپ اس کے لئے تیار ہوجائیں !
No comments:
Post a Comment