ایک وقت
تھا کہ ہندستان پوری دنیا میں فخر کے ساتھ کہتا تھا کہ وہ سیکولر ملک ہی نہیں بلکہ
وہ انیکتا میں ایکتا یعنی مذہبی رواداری اس کا امتیاز ہے۔آج حالت یہ ہے کہ ملک کو
سیکولر کہنے میں جھجھک ہے۔بلکہ وہ اس حقیقت کو چھپانے یا غائب کرنے کے درپہ ہے
۔فرقہ پرستی سر چڑھکر بول رہی ہے،اقلیتوں پر حملے ہورہے ہیں تبدیfلی مذہب کے
نام پر گھرواپسی کی مہم پر سرکار خاموش ہے،اس کا نوٹس عوام اور پارٹیاں برابر لے
رہی ہے،اور حکومت سے جواب طلب کر رہی ہے،لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کسی بھی حال
میں خاموشی توڑنے کو تیار نہیں۔راجیہ سبھا کا سرمائي اجلاس اس مطالبے کی نذر ہو
گيا کہ وزیر اعظم ایوان پر آکر عدم روادادی اور منافرت کی فضا پر بحث کرائیں اور
جواب دیں لیکن حکومت نے ایوان کی کارروائي نہ
چلنے کو ترجیح دی،پھر جب سرکار نے جب آئين کے دیباچے کا عکس اشتہار اور
راجیہ سبھا کے کلینڈر کے ذریعہ پیش کیا تو غیر ترمیم شدہ دیباچہ پیش کیا۔جس میں
ملک کے متعلق سیکولراور شوشلٹ جیسی اصطلاحات غائب تھیں۔اور تاویل کر کے اس کا جواز
بھی فراہم کرنے کی کوشش کی ،کوئي بعید نہیں کہ وزیر اعظم نے اس کی نقل یوم
جمہوریہ کی تقریب کے مہمان خصوصی امریکی صدر براک اوباما کو پیش کی ہوگي جس کا
انہوں نے فورا نوٹس لیتے ہوئے اسی دن ایک پروگرام میں یہ سبق پڑھایاکہ مذہبی عدم
رواداری اور منافرت کے خاتمہ کے بغیر ہندستان ترقی نہیں کرسکتا۔امریکی صدر کی
نصیحت پر بہت کم توجہ دی گئی حالانکہ اس پر تھوڑی سی بحث بھی ہوئي تھی،پھر بھی حکومتی
سطح پر یہ بات اڑادی گئي ۔اس پر غور ہونا چاہئے تھا کہ آخر کوئي بات تو ضرور ہے
ورنہ بیرون ملک اتنا بڑا پیغام نہیں جاتا۔
بہر حال
امریکی صدر کی بات آئي اور چلی گئی کسی نے سنی اور توجہ دی اور کسی نے ان سنی کر
دی۔ان سنی کرنے والوں میں حکومت بھی شامل ہےکیوں کہ اس کے کانوں پر جوں تک نہیں
رینگی۔جب دوبارہ امریکی صدر نے پہلے سے زیادہ سخت تبصرہ واشنگٹن سے کیا کہ اگر
ہندستان میں گاندھی جو زندہ ہوتے تو وہ مذہبی عدم رواداری اور عدم منافرت کو دیکھ
کر انتہائي صدمے سے دوچار ہوتےتو دواصل انہوں نے آئینہ دکھایا ہےکہ جس گاندھی جی
اور عدم تشدد اور مذہبی رواداری پر ہندستان ناز کرتا ہےاور پوری دنیا میں اس کا
ڈھنڈورا پیٹتا ہےاگر گاندھی جی زندہ ہوتے تو یہ حالت دیکھ کر سب سے زیادہ انہیں
تکلیف ہوتی۔امریکی صدر کے بیان پر وہاں کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی صدر کٹرینہ جنہوں نے اوباما انتظامیہ کے سامنے ہندستان کے
تعلق سے مذہبی آزادی تشویش کا اظہار کیا تھا اوباما کا بر وقت تبصرہ ہندستان کی
مذہبی آزادی کو اجاگر کرتا ہے،واضح رہے کہ مذہبی اقلیت کے خلاف بڑھتے تشدد کو دیکھ
کر امریکہ کی مذہبی آزادی کمیشن نے ہندستان کو دوسرے درجہ کی صف میں رکھا ہے۔بعد
میں امریکہ کے بااثر اخبار نیو یارک ٹائمز نے اس کو اپنے اداریہ کا موضوع بناتے
ہوئےکہ عیسائیوں پو ہوئے حملےپر اس شخص کی جانب سے کوئي جواب نہیں آیا جس کا
انتخاب تمام شہریوں کی نمایندگي کے لئے کیا گيا تھا۔اور وزیر اعظم نریندر مودی نے
اس وقت بھی خاموشی نہیں توڑی جب عیسائي اور مسلمانوں کو لالچ اور ڈرا دھکما کر
ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔تشدد کے واقعات پر ان کی خاموشی سے یہ
تاثر ملتا ہےکہ وہ ملک میں ہندو انتہا پسند کو نہ تو کنٹرول کر سکتے ہیں اور ایسا
کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔اوباما کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے یہاں تک لکھ
دیاکہ مذہبی عدم رواداری پر مودی کو بہرا کردینے والی خاموشی توڑنے کی ضرورت ہے،یہ
باتیں ایک طرف اور مودی کا وہ بیان کہ وہ سوا سو کرور عوام کاوہ وزیر اعظم دوسری
طرف کو صحیح مانا جائے اور کس کو تسلیم کیا جائے۔
امریکی
اخبار کا تبصرہ بہت سخت ہے اور امریکی مذہبی آزادی کمیشن کی تشویش بھی بہت
کچھ کہتی ہے،سب سے بڑی بات یہ کہ امریکی
صدر نے ہندستان کو نصیحت کی اور امریہ جاکر آئینہ دکھا یا۔
No comments:
Post a Comment